جمالِ یار کو تصویر کرنے والے تھے
ہم ایک خواب کی تعبیر کرنے والے تھے

شبِ وصال وہ لمØ+Û’ گنوا دیے ہم Ù†Û’
جو دردِ ہجر کو اکسیر کرنے والے تھے

کہیں سے ٹوٹ گیا سلسلہ خیالوں کا
کئی Ù…Ø+Ù„ ابھی تعمیر کرنے والے تھے

اور ایک دن مجھے اُس شہر سے نکلنا پڑا
جہاں سبھی مری توقیر کرنے والے تھے

ہماری دربدری پر کسے تعجب ہے
ہم ایسے لوگ ہی تقصیر کرنے والے تھے

جو لمØ+Û’ بیت گئے ہیں تری Ù…Ø+بت میں
وہ لوØ+ِ وقت پہ تØ+ریر کرنے والے تھے

چراغ لے کے انہیں ڈھونڈیے زمانے میں
جو لوگ عشق کی توقیر کرنے والے تھے

وہی چراغ وفا کا بجھا گئے آصفؔ
جو شہرِ خواب کی تعمیر کرنے والے تھے